Alfia alima

Add To collaction

اکیلا پھول

اکیلا پھول
دریا کے ساتھ ساتھ چلتی یہ سڑک پہاڑوں کے دامن سے گزرتی اندھیرے میں ڈوبتی ہوئی لگتی ہے۔ دن کی روشنی بادلوں کی لالی میں بدل گئی ہے اور پانی میں گھلی سرخی شام کو لہو رنگ بنادیتی ہے۔ لہریں اور آسمان کا رنگ اور مغرب کی طرف اکیلے تارے کی چمک ایک بے نام اداسی کے رشتےمیں بندھے ہیں۔ سرکنڈوں کے جھنڈ میں رنگ برنگ چڑیاں بسیرا کرتی شور مچاتی ہیں اور ہوا کی سرسراہٹ میں ملی یہ آوازیں نیلے پن کا ایک تانا بانا سا بننے لگتی ہیں۔ پرندوں کے جھنڈ اپنے ٹھکانوں کو لوٹ رہے ہیں اور ایک پرہول سناٹا پتھروں اور دریا، سڑک پر اور فضا میں گونجتا ہے، بہتا چلاجاتا ہے۔ 

سایوں کی طرف دیکھتے ہوئےدم گھٹنے لگا ہے۔ رات سڑک کے کنارے کی جھاڑیوں اور سرخ پھولوں، پانی اور ان ٹوٹی ہوئی برجیوں سے نکل رہی ہے جس کے نیچے سے دریا جانے کتنے زمانوں بہا ہے اور نکلا چلا گیا ہے۔ دم گھوٹنے والی خوشبوئیں آوارہ و پریشان خیالوں کی طرح ہر طرف سے یورش کر رہی ہیں۔ جنگل کی باس اندھیرے میں ملتی گھات سے نکل کر حملہ کرنے والے ڈاکو کی طرح ہے عین مین تمہاری خوشبو کی طرح عطیہ بیگم جو اچانک کہیں سے نکلتی اور مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا۔ تمہاری شخصیت یہی باس تھی عطیہ بیگم جو مجھے آج تک مقید کیے ہوئے ہے اور مغرب میں اکیلے تارے کی طرح تمہارا وجود۔ یہ تمہارے وجود کا المیہ تھا عطیہ بیگم جو آدمی کو بے بس کردیتا تھااور تمہارا دیکھنے اور دیکھتے رہنے کا انداز جیسے دریا کے کنارے کی گھاس میں اکیلا پھول ہوکر جھانکے اور اپنے اکیلے پن کا احساس دلائے اور پھر بے چارگی کا لبادہ اوڑھے تمہاری تابناک مسکراہٹ۔ 

یہی مسکراہٹ جس کے لیے میں گزر گیا عطیہ بیگم۔ تمہاری تابانی جو پلکوں کےنیچے سے نکل کر تمہارے چہرے پر پھیلتی تھی۔ میں نے ہمیشہ تم سے کہا تھا اور مجھے یہ احساس تھا کہ میں تمہاری شخصیت سے مرعوب ہوگیا ہوں، غلط تھا۔ میں نے تمہاری ہمت اور تمہارے باوقار انداز سے ہار نہیں مانی تھی۔ عطیہ بی بی یہ صرف تمہاری مسکراہٹ تھی جو کلی پر پھول بنتے میں گزرنے والی کیفیت کی طرح ہے۔ اس میں حزن و الم کی ایک ایسی نسبت ہے۔ اس کو تم لفظوں کے پیمانے میں نہیں ناپ سکتے اور پھر تم خود تشنہ مضراب ساز کی طرح ہمیشہ منتظر۔ مجھے لگتا ہے تم قدیم دیو مالامیں آسمانی قوتوں کی مظہر ہو۔ میرے اور اپنے المیہ میں اہم کردار ادا کرنے والی۔ 

زندگی کی ساری شامیں رنگ و نور، نغمہ و کیف نہیں ہوتیں مگر ایسی شامیں جن میں کچھ ہونے والا ہو، دل کو بری طرح دھڑکاتی ہیں جیسے کوئی ان جانی مصیبت نازل ہونے والی ہو۔ ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہو کر رہے گا۔ اور اس شام بھی یہی ہوا تھا۔ دفتر سے گھر آیا ہوں تو میرا جی اچھا نہیں تھا۔ میں باہر جانا نہیں چاہتاتھا۔ آج کی طرح سناٹے کی ایک بجتی ہوئی نوبت تھی جو رہ رہ کر دل کے ویرانے میں گونجتی تھی۔ اس محفل میں میری شرکت ضروری بھی تھی اور اس لیے جب میں دیر سے پہنچاہوں تو سازندے اپنے سازملا رہے تھے۔ لوگ منتظر تھے۔ اگلی صفوں میں میرے نام کی کرسی خالی نہیں تھی۔ ہولے ہولے رات بھیگتی گئی۔ آوازیں جادو بھری وادی سے آنے والی صداؤں کی طرح آدمی کے اندر سوئی تانوں کو جگانے لگیں۔ 

وہ یاد گار رات جب لگ رہا تھا زمین و آسمان وجد میں آئے ہوئے ہیں۔ ہر شے خاموش ہے اور چپ چاپ منتظر ہے۔ مجھے اپنا سانس رکتا ہوا لگتا تھا۔ تم سمندر کے سامنے اپنے آپ کو جیسے بےبس اور حقیرذرہ محسوس کرتے ہو ویسے ہی موسیقی میں اپنے آپ کو ناچیز اور فنا ہوتا پاتے ہو۔ لے اور لے میں بول اور دنیا کی خوبصورتی بہتی ہوئی شوق بنتی ہوئی اور پھر یوں لگتاتھا ساز، روحیں، صدائیں سب مل کر بہہ رہے ہیں۔ ایک دریا تھا جوش و روانی میں ہستی کو سیال بناتا ہوااور اپنےساتھ خس و خاشاک کی طرح تمام تمناؤں اور آرزوؤں کو بہا کر لے جاتا ہوا۔ میں آنکھیں بند کیے تھا اور گانےوالوں کے ہاتھوں کی لذت اور بھاؤ بتانے کے انداز سے بے خبر اس گھڑی میں دیوتا بنا ہواتھا اور خیال کی ساری کثافتیں اور آلودگیاں دھل چکی تھیں۔ اپنے نکھرے ہوئے باطن کے ساتھ جب میں نے تمہیں دیکھا ہے تو اس المیہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھے یونانی دیو مالا کا کوئی کردار لگیں۔ 

میں نے پوچھا تھا، ’’تمہیں کہاں جانا ہے بی بی کہیے تو میں پہنچا آؤں۔‘‘ 

’’مجھے بہت دور جانا ہے، میری منزل قریب نہیں ہے، آپ کو ناحق تکلیف ہوگی۔‘‘ 

میں نے موٹر کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا، ’’میری تکلیف کاخیال نہ کریں، آخر کسی طرح تو آپ کو پہنچنا ہوگا ہی نا۔‘‘ 

تم نےگھبرائی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا جیسے اجنبی آدمی سے تم نےکبھی بات ہی نہ کی ہو۔اور میں نے سوچا اگر تم ایک دو سال کم کی ہوتیں تو میری نوری کے برابر ہوتیں۔ مجھے اپنی بیٹی میں اور تم میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا اور خدا گواہ ہے عطیہ بیگم تم جو میری ہستی کو اپنی روانی میں خس و خاشاک کی طرح بہانا چاہتی تھیں، اگر تم کو میں نے نوری کی طرح کم عقل اور بے بس نہ جانا ہوتا، تم سے تمہاری حفاظت نہ کی ہوتی، اپنے سے تمہیں نہ بچایا ہوتا تو آج میں تمہاری اس مسکراہٹ کی بھینٹ نہ ہوتا۔ تمہیں پاکر میں نے یوں محسوس کیا جیسے میں مدتوں بیمار رہا ہوں اور اب روبہ صحت ہوکر پہلی بار ہواؤں کی نرمی اور گیتوں کو اپنے گرد محسوس کر رہا ہوں جیسے تم رات کا راگ ہو اور میری ہستی پر سے بہہ رہی ہو اور بے نام خوشبو کی طرح تم نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا۔ تم چاندنی بن کر میرے سارے وجود پر پھیل گئیں مگر یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ 

تمہاری منزل آگئی تو تم نے پچھلی سیٹ پر سے اترکر دروازہ بند کردیا اور بنا شکریہ کا ایک لفظ کہے اندر چلی گئیں۔ میں حیران تھا مگر پھر یہ سوچ کر کہ شاید اتنی کم عمری میں ایسی باتوں کاشعور نہیں ہوتا،جی کو تسلی دی اور گھر چلاآیا۔ ساری رات خواب اور بیداری کی ایک عجیب سی حالت تھی جو مجھ پر طاری رہی۔تم موٹر میں اپنی جو خوشبو چھوڑ گئیں وہ مجھے پریشان کرتی رہی اور ساتھ ہی موسیقی کی تانیں جن پر روح جھوم جھوم گئی تھی دماغ میں گونجاکیں۔ 

چار دن بعد جب میں دور ے سے واپس آیا تو اپنی میز پر میں نے اجنبی تحریر میں جو مائل بہ پختگی تھی ایک خط اپنی میز پر پڑا دیکھا۔ آج بھی معلوم نہیں پڑتا شاید میں کبھی اس گتھی کو سلجھا نہ سکوں گاکہ میں جس نے ایسے سیکڑوں خط اپنی میز پر دیکھے تھے۔ جنہیں کھولا تھا اور جن کے جواب لکھے تھے، ایک خط کو پاکر کیوں ایسا بے قرار ہوگیا تھا۔ کھولنے سے پہلے میری عجیب کیفیت ہو رہی تھی جیسے کوئی ان دیکھا ان جانا خوف ہو۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنےلگا۔ مجھے اپنے ہاتھ ٹھنڈے ہوتےجان پڑے۔ تم دماغ کے پردوں پر جانے کیسے آگئیں، یوں جیسے غلطی سے پردہ سیمیں پرکوئی غلط ریل چل جائے اور الٹے سیدھے عکس ظاہر ہوں اور مشین چلانے والا جی میں شرمندہ سا جلدی سے مشین بند کردے۔ وہ لڑکی جس کو شکریہ تک ادا کرنے کا شعور نہیں۔ بھلا وہ کیوں لکھے گی۔ مگر میں نے اس خط کو اسی طرح رہنے دیا اور کلرک سے بات کرنے میں مصروف ہوگیا۔ آدمی کئی ایسے کام کرتا ہے جس کی خود اسے بھی سمجھ نہیں آتی۔ اس خط کو نہ کھولنےکی بات آج تک سمجھ میں نہیں آئی مگر میں آنے والے لمحے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا تھا۔ 

بغیر القاب کے بنا خطاب کے لکھا تھا۔ 

’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔‘‘ 

شکریہ 

عطیہ بیگم 

’’لاحول ولاقوۃ۔‘‘ میں نے خط کو پھاڑتے ہوئے کہا۔ کیابے وقوف سی لڑکی ہے بھلا یہ طریقہ شکریہ ادا کرنے کا کیسا ہے اگر گھر کے دروازے پر مجھ سے کہہ دیتی تو لکھنے کی کیا ضرورت تھی مگر لڑکیاں اس عمر میں عجیب عجیب حرکتیں کرتی ہیں۔ لڑکیاں بھی اور لڑکے بھی، عمر کا یہ دور جس سے ان دنوں تم گزر رہی تھیں ایسا ہی تھا۔ شعر کے ٹکڑے کو بھی میں نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ کبھی کا پڑا ہوا یہ ٹکڑا تمہارے ذہن میں ہوگا خواہ مخواہ علمیت جتانے کے لیے تم نے لکھ دیا ہوگا۔ اپنے دل کی دھڑکن پر اور اپنی بے وقوفی پر مجھے بہت ہنسی آئی۔ اس دن میرا موڈ بہت خوشگوار رہا۔ 

گھر آکر میں نےنوری کو بہت غور سے دیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ میری بیٹی بھی ایسی ہی حماقتیں کرتی ہو۔ کم از کم اس دن تو تمہارے ایک چھوٹے سےنوٹ کو میں نے قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی اور نہ ہی جواب دینا ضروری سمجھا۔ گو تمہارا پتہ اس میں لکھا ہوا صاف موجود تھا۔ بھلا میں عمر کے اس دور میں ذرا ذرا سی لڑکیوں کی حماقتوں پر غور کس طرح سے کر سکتا تھا، دنیا کے اور کام تھے۔ لکھنا پڑھنا، ملنا ملانا، بیوی بچے میری اپنی پوسٹ مجھے بھلا کس شے کی کمی تھی۔ کلب دوست احباب۔ 

دو دن بعد پھر ایک اسی طرح کانوٹ میری میز پر رکھا تھا لکھا تھا، ’’واں وہ غرور عزوناز۔‘‘ میں نے جھنجھلاکر کاغذ کو سیکڑوں پرزوں میں پھاڑا اور سوچتا رہا یہ لڑکی کوئی سرپھری اور دیوانی معلوم پڑتی ہے۔ بھلا میں اتنا مصروف انسان اس آنکھ مچولی کے لیے وقت کہاں سے لاؤں اور اگر وقت ہو بھی تو اس چکر میں کیوں پڑوں۔ پھر میں نے سوچا کم سن ہے اس کے شکریہ کرنے کا میں نے کوئی نوٹس نہیں لیا نا، اس لیے اس نے غالب کے اس مصرعے کے ذریعہ مجھ سے گلہ کیا ہے اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے بھلا۔ ایک کونے میں ٹیلی فون نمبر بھی لکھا تھا۔ 

مگرمیں نے دو دن اور نہ خط لکھا اور نہ فون کیا۔ عام طور پر میں نہ ایسا سست ہوں اور نہ ہی مغرور۔ لڑکیوں کی توجہ اپنی طرف منعطف کروانے کی اپنی طرف سے میں نے بہت کم کوشش کی ہے،اگر کروں بھی تو دلچسپی قائم رکھنے کی خاطر کو حد سے تجاوز نہیں کرتا مگر پھر بھی واجبی التفات کا قائل ہوں۔ اس خط کو پڑھ کر مجھے تمہاری مسکراہٹ یاد آئی، تمہارا سراپا اور دوپٹے سےڈھکا تمہارا سر، تمہاری جھکی ہوئی جھالر کی سی لمبی سیاہ پلکیں اور تمہارا وہ سہما سہما سا انداز یا دآیا۔ اور پھر میں نے سوچا کہ تم ایسی بے بس جو اس رات لگ رہی تھیں،اصل میں کچھ اور ہو۔ تمہاری صورت کی بس گنی چنی لڑکیاں ہی سارے شہر میں ہوسکتی ہیں۔ پھر تم نے یہ نوازش و کرم کیوں شروع کیا سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ 

کئی بار میں نے نمبر ملایا اور پھر فوراً ارادہ بدل دیا۔ یہ بات نہیں کہ میں تم کو اپنی طرف ملتفت کرنا چاہتا تھا۔ یونہی جانے کیوں جی نہیں چاہتا تھا کہ میں بات کروں۔ پتہ نہیں کیا تھا جو راہ میں حائل تھا۔میں مشکل پسند بھی نہیں ہوں اور لڑکیوں کا تعاقب کرنا میری عادت بھی نہیں پھر بھی تمہیں فون کرنا مجھے اچھا نہیں لگا۔ بھلا میں کیا کہوں گا یہ کہ آپ کے دو نوٹ ملے اور میں نے جواب نہیں دیا۔ بنا گناہ کے یہ عذر گناہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ پھر میں نے فون نہیں کیا مگر وہ ساری شام عجیب طرح بے کلی میں گزری۔ سونےکے لیے لیٹا ہوں تو خیال ہوا اب تو تم سوگئی ہوگی۔ 

دوسری صبح میں دفتر کے کاموں میں لگا تھا کہ تمہارا نوٹ پھر آیا۔ اب میں اس یک طرفہ خط و کتابت میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ زیر لب مسکراہٹ سے میں نےخط لیا، لکھا تھا، ’’قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں۔‘‘ چند لمحوں تک میں سن بیٹھا رہا۔ اس خط میں نہ پتہ تھا اور نہ ہی فون۔ میں تمہارا فون نمبر اور پتہ یاد کرنے کی کوشش کرتا مگر کچھ یاد نہیں آیا۔ جھنجھلاہٹ اور عجیب بے چارگی کا احساس ہوا۔ رات کو سونے کی کوشش کرتا تو نیند نہ آتی۔ بیوی نے پوچھا، ’’کیا ہے بے چین کیوں ہو کیا کوئی دفتری پریشانی ہے۔‘‘ 

’’نہیں بھئی کوئی پریشانی نہیں۔‘‘ میں نے قطعاً اس کی ہمدردی کا کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ ذرا سا غصہ مجھے آیا۔ اس پر نہیں اپنے آپ پر کہ ایک ذرا سی لڑکی نے جو دو دفعہ محض دل لگی کی خاطر آپ کو ذرا ذرا سے شعر لکھ دیے تو دیوانے ہونے لگے۔ اپنی چوری پکڑی تو شرمندگی بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا۔ حالت یہ ہوگئی کہ فون کی گھنٹی بجی اور میرا دل دھڑکنا شروع ہوگیا۔ ایک ہفتے کے بعد جب میں مایوس ہوکر تمہارا وجود بھولتا جا رہا تھا، تم نے فون کیا۔ مجھے خیال تک نہیں تھا کہ یہ تم ہوگی۔ میں نے ریسیور اٹھایا ہے تو تم نے کہا تھا۔ 

’’آپ کو لکھنا نہیں آتا کیا؟‘‘ تمہاری آواز میں عجیب طرح کی ملائمیت تھی، الم سے بھری ہوئی اور رنجیدہ کرنے والی۔ میں نے کچھ لمحوں تک جواب نہیں دیا۔ میرے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ پھر میں نے کہا، ’’میں مصروف ہوں بہتر ہوگا اگر آپ پندرہ مند بعد فون کریں۔‘‘ وہ سارا دن فون کا انتظار کرتا رہا۔ دفتر میں دیر تک بیٹھا رہا یہ سوچ کر کہ شاید تم فون کرو۔ مضمحل سا اور اداس اداس گھر لوٹا۔ شام کو بادل تھے اور خاص چہل پہل تھی، رونق تھی اور دنیا بڑی حسین لگ رہی تھی۔ بچے مصر ہوئے کہ انہیں سیر کرالاؤں۔ بیوی نے کہا کہ کئی دنوں سے تم اتنے اداس ہو رہے ہو چلو آج باہر چلیں گھوم بھی آئیں گے اور مجھے ایک سہیلی کے ہاں جانا ہے، وہاں سے ہوتے ہوئےآئیں گے۔ بادل نخواستہ سب کو موٹر میں لاد کر چلا۔ 

جن صاحب کے ہاں جانا تھا وہاں کوئی پارٹی ہو رہی تھی۔ بہت لوگ جمع تھے۔ صاحب خانہ مصروف تھیں ان کی لڑکی باہر آئی۔ تم میں اتنی ملتی ہوئی کہ میں دیکھتا رہ گیا۔ جب اس نے کہا، ’’انکل آپ نہیں اتریں گے؟‘‘ تو میں نے ہڑبڑا کر کہہ دیا کہ نہیں میں آگے جارہا ہوں۔ واپسی میں بچوں کو لے لوں گا۔ شام لہو رنگ ہو رہی تھی۔ بادل چھٹ گئے تھے اور بڑے بڑے سرخ پہاڑوں کی طرح لگتے تھے۔ لوگ خوشیاں منارہے تھے۔ موسم کی ذرا سی تبدیلی طبیعت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ ٹولیوں میں بٹے جوان لڑکے گٹار بجارہے تھے۔ موٹروں میں بھر کر سمندر کی طرف جاتے ہوئے گاتے ہوئے عجیب ہنگامہ تھا۔ لاحول و لا قوۃ میں بھی کیا دیوانہ آدمی ہوں، عطیہ بیگم کی وجہ سے کوئی شے یعنی کہ اچھی ہی نہیں لگ رہی۔ عجیب بے ہنگم خیالات ہیں ذرا سا کسی نے توجہ دی اور آپ بس گئے۔ یہی آپ کا کیریکٹر ہے جس کا ڈنکے کی چوٹ آپ اعلان کرتے ہیں۔ میں اپنے آپ سے شرمندہ ہوتا رہا۔ 

دوسرے دن رات کی سرزنش کرنے کی وجہ سے طبیعت بہت حدتک ٹھیک تھی۔ فون کی گھنٹی بجنے پر مجھے فون کا انتظار نہیں تھا۔ عام حالات میں تم سے ملنے سے پہلے میں جیسا تھا ویسا ہی تھا۔ آرام سے کام کر رہا تھا۔ چپراسی نے چک اٹھائی اور تم اندر آئیں۔ وہ کچھ دیر کھڑا رہا۔ میں نے اپنے آپ پر گرفت مضبوط کرکے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا اور تم بیٹھ گئیں۔ تمہاری مسکراتی ہوئی آنکھیں آج بھی یاد آتی ہیں تو مجھے اپنی وہ اس لمحے کی گھبراہٹ یاد آتی ہے۔ بظاہر میں کام میں مصروف تھامگر اپنے آپ کو لعنت ملامت کر رہا تھا۔ آخر میں اتنا کمزور کیوں ہوگیا تھا۔ کمزور اور بے وقوف اور پاگل۔ کسی کا فون آیا جس سے مجھے خاص تقویت ہوئی۔ میں نے سوچ لیا کہ میں تمہیں کسی ریسٹوران میں لے چلتا ہوں۔ چائے پلاؤں گا اور سمجھاؤں گا کہ ذرا ذرا سی لڑکیاں غالب کے اشعار کا غلط استعمال نہیں کیا کرتیں۔ 

عجیب سرپرستانہ انداز سے میں نے کہا، ’’چلو بی بی تم کو کسی کیفے میں چائے پلائیں۔‘‘اور یہی میری غلطی تھی۔ اگر اس گھڑی تم سے دفتر میں بات کرکے تم کو رخصت کردیتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ چپراسی سے میں نے کہا کام سے جارہا ہوں آدھ گھنٹے میں لوٹ آؤں گا۔ بیٹھے ہوئے میں نے اپنے ساتھ والی سیٹ کا دروازہ تمہارے لیے کھول دیا اور خود ڈرائیور پر جابیٹھا۔ موٹر چلی ہے تو تم نے کہا، ’’کس منہ سے شکر کیجیے اس لطفِ خاص کا۔‘‘ میں اس قدر تیزی سے کسی تقریر کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میں ناصح نہیں ہوں مگر پھر بھی میں نے کہا، ’’لگتا ہے غالب کے اشعار آپ کو خوب یاد ہیں۔‘‘ 

تم نے موٹر چلاتے ہوئے میرے ہاتھ کو زور سے پکڑ لیا اور کہا، ’’آپ مجھے بچہ کیوں سمجھتے ہیں۔ میں اٹھارہ سال کی کب سے ہوچکی ہوں اور بی اے میں پڑھتی ہوں۔ آپ نے مجھے کیا سمجھا ہے کہ میرے خطوں کا جواب نہیں دیتے، مجھ سے فون پر بات نہیں کرتے،آپ کون ہوتے ہیں اس طرح میری بے عزتی کرنے والے؟‘‘ 

’’لاحول و لا قوۃ۔‘‘ میں نے دل ہی دل میں کہا تھا اور بظاہر تم سے اپنا ہاتھ چھڑانے کے لئے کہا تھا، ’’بی بی تم میری بیٹیوں کے برابر ہو اور پھر خطوں میں ایسی کون سی بات تھی جس کا جواب میں ضرور دیتا۔ اس کے علاوہ میں آپ کو قطعاً نہیں جانتا۔ میں فو ن پر آپ سے کیا کہتا۔‘‘ 

’’آپ غلط کہہ رہے ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ آپ کو دنوں میرے فون کا انتظار رہا ہوگا اور خط کا بھی۔ میں آپ کی بیٹیوں کے برابر ضرور ہوں مگر آپ کی بیٹی نہیں۔ آپ مجھ سے یہ بزرگانہ مشفققانہ برتاؤ نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ آج میں شکست دینے یا ہار ماننے آئی ہوں۔ اور میں آپ کے ساتھ کسی ریسٹوران میں نہیں جا رہی، مجھے کلفٹن یا کسی اور جگہ لے چلئے۔ مجھے آپ سے بہت کچھ کہنا ہے۔ سمجھے آپ۔‘‘ 

میں نے موٹر کلفٹن کی طرف موڑ لی۔ سارا راستہ تم نے کوئی بات نہیں کی۔ تمہارے سانس لینے سے پتہ چلتا تھا کہ تم ہانپ رہی ہو جیسے بہت دور کا سفر طے کرکے آئی ہو۔ میں پنجرے میں بند پرندے کی طرح محسوس کر رہا تھا جیسے بھاگ بھاگ کر تھک کر کوئی صیاد کے آگے اپنے آپ کو بے بس پائے۔ میں نے جی میں کہا، کیا زرودار لڑکی ہےاور کس قدر جرات مند۔ میں تمہاری ہمت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکا۔ 

ہم سمندر کے کنارے تک ایک دوسرے سے کچھ کہے بنا چلے گئے،جیسے تمہیں مجھ سے کچھ نہ کہنا ہو۔ میں نے کہا، ’’عطیہ بیگم! میرا خیال ہے، یہی آپ کا نام ہے، کہئے آپ کو مجھ سے کیا کہنا ہے؟‘‘ تم پھر بھی چپ رہیں۔ میں نے کہا، ’’بھائی آخر کب تک سمندر کے کنارے ٹہلیں گے آپ تو کہہ رہی تھیں کہ آپ کو مجھ سے بہت کچھ کہنا ہے بولیے تو سہی۔‘‘ تم نے میری طرف دیکھ کر کہا، ’’پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’عطیہ بی بی! آپ میرے لیے بالکل اجنبی ہیں، میں بال بچوں والا آدمی ہوں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ بتادیں تو مہربانی ہوگی۔‘‘ 

تھوڑی دور تک اور ہم ایسے ہی چلتے گئے۔ میں حیران تھا کہ اب جانے آگے یہ لڑکی کیا کرے مگر تم نے پلٹ کر اپنے بازو میری کمر کے گرد حمائل کردیے اور اپنا سر میرے سینے پر رکھ کر رونے لگیں۔ تمہاری گرفت اتنی مضبوط تھی کہ میں اپنے آپ کو چھڑا نہیں سکتا تھا اور میں نےنہایت آہستگی سے تم کو اپنے سے علیحدہ کرنے کی کوشش بھی کی مگر تم اور مضبوطی سے اپنی بانہوں کا حلقہ میرے گرد تنگ کرتی گئیں۔ تم نے اس طرح سسکیاں بھرتے ہوئے کہا تھا، ’’میں اٹھارہ سال کی جوان عورت ہوں، بچہ نہیں میرے سر پر ہاتھ مت پھریں۔‘‘ 

بخدا زندگی میں اس گھڑی سے زیادہ میں نے کبھی انے آپ کو خالی الذہن نہیں پایا۔ میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ میں جو ایک ذمہ دار شہری۔ ذمہ دار افسر اور ذمہ دار باپ تھا، جس کی شوہر پرستی مشہور تھی اور جس کی آنکھ مچولی بھی اس قدر بے ضرر ہوتی تھی کہ قصے نہیں بن سکتے تھے۔میں نے دیکھا دور دور تک ساحل پر کسی آدمی کا پتہ نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے شرم کے مارے میرا برا حال ہوجاتا۔ میں نے کہا نا کہ تم میری زندگی میں پہلی لڑکی نہیں تھیں مگر پھر بھی تمہاری نسائیت کہاں گئی تھی اور میں کس طرح سے گرفتار تھا۔ تمہارے اور میرے قدموں کے نشانات پر جانے کتنے لوگ انہیں راہوں پر چلے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے میں ہی پہلا آدمی تھا جو اس طرح سے پکڑا گیا۔ 

تمہاری سب حرکات میں نہ تو بناوٹ تھی اور نہ ہی وہ سادگی جو پاگل پن کہلاتی ہے۔ پھر میرے سینے سے لگی لگی تم مسکرائیں۔ تمہاری آنسوؤں سے بھیگی مسکراہٹ جس میں نہ ریا تھی اور نہ شوخی۔ سادہ سی ایک بے بس لڑکی کی الم زدہ ہنسی۔ اور یہی تمہاری الم زدہ ہنسی تھی جس نے مجھے جیت لیا۔ اس شام میں گھر آیا ہوں تو بیوی نے کہا، ’’آج تم کہاں تھے، بچے کو چوٹ آئی تھی، میں نے بار بار دفتر فون کیا، پتہ چلا تم آدھ گھنٹے کا نوٹس دے کر چلے گئے ہو اور لوٹ کر نہیں آئے۔ میں حیران کہ تمہیں کہاں تلاش کیا جائے۔‘‘ 

’’یونہی ایک پرانے دوست مل گئے،ان سے باتیں کرتے رہے،پرانے دنوں کی باتیں دل کو عجیب طرح اپنے شکنجے میں لیتی ہیں۔‘‘ مگر میں نے آنکھ اٹھا کر بیوی کی طرف نہیں دیکھا۔ سونے کے لئے لیٹا ہوں تو جی چاہتا چپ نہ ہوں، کسی سے باتیں کئے چلا جاؤں۔ مگر احساس گناہ بھی دور دل کے گوشے میں تھا۔ بھلا بچے کو چوٹ آئی ہو اور میں کیسا باپ تھا جو ساحل سمندر پر بیٹھا تھا۔ 

کچھ دنوں پھر نہ تمہارا فون آیا اور نہ ہی کوئی خط۔ میں مضطرب، بے چین تمہاری خوشبو کو اپنے سینے میں امانت کے بوجھ کی طرح چھپائے اپنے کاموں میں لگ گیا۔ تم سے ملنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا اور تم سے بات کہیں ہو نہیں سکتی تھی۔ تم جانے کون مخلوق تھیں کہ غائب ہو گئی تھیں۔ پندرہ دن۔۔۔ اضطراب، امید وبیم کے پندرہ دن، تمہاری کسی خبر کے بنا پندرہ دن گزر گئےتو تمہارا فون آیا۔ 

’’میرا ایک کزن آیا ہوا ہے،اس کی وجہ سے نہ آنا ہو سکا ہے اور نہ ہی فون۔‘‘ میں نے شکایتاً کہا، ’’کم از کم تم فون تو کر سکتی تھیں۔‘‘ اور تم نے کہا تھا، ’’انتظار کا المیہ یہ ہے کہ وہ سب کو یونہی پریشان کرتا ہے۔ اگر آپ کہیں تو تو میں آپ سے ملنے آؤں اور کزن کو بھی ساتھ لاؤں۔ خیر میں آؤں گی۔‘‘ اور کھٹ سے فون بند کر دیا۔ 

میں ریسیور ہاتھ میں لیے بیٹھا ہوا ایک ایسے الو کی طرح لگ رہا تھا جس پر ساری دنیا ہنستی ہو۔ مجھےخود اپنے اوپر رحم آیا۔ ان پندرہ دنوں کی پندہ بے آرام راتوں میں مجھ پر کیا کچھ نہیں بیتا تھا۔ میں کیا سے کیا ہوگیا تھا۔ میرے عزم، میرے ارادے ایک اٹھارہ سال کی نوخیز لڑکی کے ہاتھوں برباد ہوگئے۔ اس کا وجود میرے اخلاقی نظریوں اور خودداری کا مذاق اڑا رہاتھا۔ میں ایک زر خرید غلام کی طرح اس کے فون اور اس کی آواز کے ترنم کو سننے کے لیے ترستا تھا۔ وہ چھلاوے کی طرح جب چاہتی تھی غائب ہو جاتی تھی اور جب چاہتی تھی دکھائی دیتی تھی۔ مثنویوں کے شہزادوں کی طرح میں بھٹک رہاتھا اور وہ غصہ ور جادوگرنی جب جی چاہتا تھا مجھے جدائی کے کنوئیں سے باہر نکالتی کھلاتی پلاتی اور پھر مجھے اسی کنوئیں میں پھینک دیتی تھی۔ 

جس دن تم کزن کو لے کر آنے والی تھیں میں صبح سے دوپہر تک دفتر میں ہر آہٹ پر کان لگائے بیٹھا تھا۔ جب چک اٹھتی اور چپراسی آتا میں سوچتا یہ تم ہو۔ پھر تمہارا فون آیا کہ تم کالج میں ہو کسی ڈرامہ کی ریہرسل ہو رہی ہے۔ اگر میں آ سکوں تو تمہیں وہاں سے لے لوں۔ جزبز تو میں ہوا مگر چونکہ تم فون بند کرچکی تھیں اس لیے کالج کی طرف چلا۔ تم آئیں بال بکھرے ہوئے ایک المیہ کردار کی صورت اور آکر میرے پہلو میں بیٹھ گئیں۔ تمہاری پلکوں کےنیچے سے مسکراہٹ تمہارے رخساروں پر پھیل رہی تھی، تمہارے لمبے سیاہ بال لبادے کی طرح تمہارے گرد پھیلے تھے۔ تم نےنہایت خوبصورت رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کا عکس تمہارے چہرے کو بھی رنگے دیتا تھا، جیسے یہ تم نہیں ہو زہر کا رنگ ہو سبز رنگ۔ مجھے لگا جیسے تم نے زہر پی رکھا ہےاور اب کوئی دم میں گرنےوالی ہو۔ پھر ہولے ہولے یہ زہر میرے رگ و پے میں بھی سرایت کرگیا۔ 

تم نے اتنے دنوں کی غیرحاضری کی معذرت نہیں کی، کچھ نہیں کہا۔ میرے سینے پر سر رکھے سسکتی رہیں۔ میرا نام لے کر پکارتیں اور میرے سینے سے لگ جاتیں۔ جیسے یہ بھی تمہارے ہاں ہونے والے ڈرامے کاایک حصہ ہو اور میں بھی اس ڈرامے میں کوئی کردار ہوں نہایت غیراہم سا۔ اصل میں مجھے معلوم نہیں عطیہ بیگم کہ تمہارے اس ڈرامے میں جس کو میں تمہاری ذات کا المیہ کہوں گا، میں نے کون سا کردار ادا کیا۔ بیتے وقتوں کے بائیسکوپ میں کردار صرف حرکتوں سے اپنا آپ واضح کرتے تھے مگر میری سب حرکتوں پر تو تمہارا اختیار صرف تمہارا۔ اور اب میں تمہارے چپ چاپ اندھیرے میں سے آنے اور اپنے ساتھ لگ کر روتے رہنے کا عادی ہو چلاتھا۔ 

خالی الذہن میں اگر چاہتا کہ اپنے آپ تمہارے سر پر ہاتھ پھیروں، تمہارے بالوں کی خوشبو سونگھوں، تمہارا بھٹی میں جلتا آنچ دیتا جسم چھولوں تو یہ ناممکن تھا کہ میں معمول تھا اور تم عامل تھیں۔ جب تم مجھے چھوڑ دیتیں تو میں تمہارا ہاتھ تھام لیتا۔ ہم سامنے سمندر کو دیکھتے رہتے۔ میں بات کرتا تو تم میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیتیں اور میں خاموش گم سم اسی طرح بیٹھا رہتا۔ آج جب تمہیں دیکھے اور تم سے ملے زمانے ہوگئے ہیں اور میں تمہاری طرف سے کچھ مایوس بھی ہوچلا ہوں۔ مجھے آج بھی معلوم نہیں کہ تم کیا ہو۔ تمہاری ملاقاتوں میں اتنا موقع ہی کب ملتا تھا کہ تم سے کچھ پوچھا جاتا۔ 

تمہارے کالج ڈرامہ ہم بھی دیکھنے گئے تھے۔ اصل میں میرے دوست مجھے کھینچ کر لے گئے۔ میں جانا نہیں چاہتا تھا مگر چلا گیا۔ جب جب تم اسٹیج پرآئیں، ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھتا۔ لوگ کس اشتیاق سے تمہیں دیکھتے تھے۔ میرے دوست نے کہا، ’’ریاض یار دیکھو یہ کیسی لڑکی ہے، اس کردار کے لیے کتنی موزوں ہے۔ تم اگر یہ جانتے کہ وہ کون ہے تو اس ڈرامے کا لطف دوبالا ہوجاتا۔‘‘ میں نے کہا، ’’تم اسے جانتے ہو کیا؟‘‘ میری آواز کا اضطراب محسوس کر کے میرے دوست نے سر ہلا دیا مگر حیرت سے مجھے دیکھنے لگا، جیسے اس بے چینی کی تھاہ لینا چاہتا ہو۔ میں شرمندہ سا ہوکر پھر اپنے سامنے دیکھنے لگا۔ عطیہ بیگم میرے دل میں شک نے سر اٹھایا۔ 

اس دن میں نے خاص طور پر بہت دن پہلے سے کسی غیر ملک میں جانے والے دوست سے ہاکس بے پر اس کے ہٹ کی چابی مانگ لی تھی۔ میں کئی دنوں سے تمہارا منتظر تھا۔ تم نے جلد ہی میں گھبراہٹ میں ویسے ہی فون کیا کہ تم آنے والی ہو اور مجھے دفتر میں نہیں ملوگی بلکہ کسی بس اسٹاپ سے میں تمہیں لے لوں۔ وہ اسٹاپ میری راہ سے بہت دور تھا، میں نے وہاں کے کئی چکر لگائے مگر تم نظر نہیں آئیں۔ جب میں مایوس ہوکر جانے والا تھا اور لوگ مجھے یوں موٹر میں گھڑی گھڑی اس جگہ کے چکر لگاتے دیکھ کر شک و شبہ سے دیکھ رہے تھے، تم آئیں جیسے دور سے بھاگتی ہوئی آئی ہو اور دروازہ کھول کر میرے پہلو میں بیٹھ گئیں۔ 

موٹر میں بیٹھتے ہی میں نے پوچھا، ’’عطیہ بیگم میرے علاوہ اور کتنے لوگ آپ کو جانتے ہیں۔‘‘ 

’’آپ کے علاوہ بہت سے لوگ مجھے جانتے ہیں مگر یہ آپ کیا پوچھ رہے ہیں۔ کیا آپ کو میرے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔‘‘ 

میں نے سوال جس طرح سے میں چاہتا تھا، تم سے نہیں پوچھا تھا اور پھر ہاکس بے کے اس ہٹ میں شام ہماری راہ دیکھ رہی تھی۔ ابھی ہمیں بہت طویل مسافت طے کرنا تھی اور میں بات بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ ہاکس بے پر پہنچتے ہی تم نے کہا، ’’بس ذرا سمندر کے کنارے ٹہلیں گے پھر میں گھر جاؤں گی۔ میری امی کا جی اچھا نہیں ہے۔‘‘ ہوا زوروں میں چل رہی تھی، بادلوں کی سیاہی میں سمندر ملگجے پانی کا ابلتا ہوا کنواں تھا۔ ہم دیر تک کنارے کی گیلی ریت پر ننگے پاؤں چلتے رہے۔ ہاتھ میں ہاتھ دیے۔ بیچ بیچ میں تم میرا ہاتھ پکڑ کر دباتیں۔ میرے سامنے کھڑے ہوکر مجھے بازوؤں میں جکڑ لیتیں اور میرے سینے پر سر رکھ دیتیں۔ اور ہر دفعہ مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگتا۔ تمہاری گرفت آج کی طرح اس وقت مجھ پر اتنی گہری ہوتی اور میں سوچتا تھا اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تمہیں کتنے لوگ جانتے ہیں۔ اس ایک لمحے تو تم صرف میری ہو۔ 

تمہارا وجود اس روز لہروں کے شور اور ہوا کی تندی میں مجھے اپنے وجود کا ایک حصہ لگا۔ اور پھر اب کہ میرے بالوں میں سفیدی جھلکنے لگی تھی تم مجھے ایسے سچے گلاب کی طرح لگیں جو میرے ذرا سا چھونے اور ہاتھ لگانے سے اپنا رنگ اور خوشبو کھودے گا۔ تمہاری محبت نے میری زندگی کو نئی جلا اور میرے جینے کو نئی امنگ بخشی تھی۔ تمہارے گلابوں کا اثر مجھ پر ہو رہا تھا۔ میں ان دنوں خوشی اور سرشاری کی نئی لذت کے ساتھ ساتھ تلخی اور بے بسی کے نئے دوراہے پر تھا۔ تم ہوا کی طرح میرے آس پاس اردگرد میرے وجود کا احاطہ کیے تھیں اور میری پہنچ سے باہر بھی۔ 

جب میں نے واپس جانے کے لیے موٹر کا دروازہ کھولا ہے تو تمہارااپنی امی کے جی کے لیے سارا اضطراب رخصت ہوگیا۔ تم اسی طرح میرے ساتھ لگ کر کھڑی ہوگئیں۔ اگر میں چاہتا تو ہم ہاکس بے کی اس ہٹ میں رات سمندر کے کنارے گزارسکتے تھے مگر میں نےبہت دنوں سے پہلی گھڑی سے سب کچھ تم پرچھوڑ رکھا تھا۔ مجھے آج بھی معلوم ہے اگر میں تمہیں آسرا دیتا تو تم اس ہٹ تک پہنچ سکتیں مگر میں تمہاری نگاہوں کے عزم سے آج اپنے آپ کو بچانا چاہتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ تمہاری خودسپردگی میرے اشارے کی منتظر ہے مگرمیں تمہیں تمہارے سپرد بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے میں تمہیں واپس لے آیا۔واپسی میں تم باتیں کرتی رہیں جیسے میری بیاہتا بیوی میرے ساتھ کرتی تھی۔ سیاست کی، دنیا کی، موسم کی،چند لمحوں پہلے کی، ساحل سمندر کی۔عطیہ میں اور تم میں کتنا فرق تھا۔ جب میں تمہیں تمہارے گھر کے سامنے پہنچا کر واپس آرہا تھا تو تم نے ایسی زخمی نظروں سے مجھے دیکھا مانو میں نےتمہیں بہت ہی ٹھیس پہنچائی ہو تمہاری بے عزتی کی ہو۔ 

اس کے بعد بہت دنوں تمہارا فون نہیں آیا۔ میں نے تمہارے گھر کے کئی چکر لگائے۔ یونہی سامنے سے گزرا چلا جاتا۔ ایک بار تم دکھائی دیں پانچے اٹھائے ٹیوب لیے اس انہماک سے پھولوں کو پانی دیتی ہوئیں کہ میں نے سوچا یہ تم نہیں ہو کوئی اور ہے مگر تم نےآنکھ اٹھاکر باہر کی طرف نہیں دیکھا۔ بس ایک جھلک اور کچھ نہیں۔ امتحانوں کا زمانہ بیت گیا۔ میں نے تمہارے کالج کی لڑکیوں کو یوں گھور گھور کر دیکھا کہ شاید تمہیں دیکھ سکوں مگر مہینوں گزر گئے اور تم نہیں آئیں۔ میرے جذبات کی پرشور ندی میں وقت نے نرم روی پیدا کردی۔ جانے کتنے موسم بیت گئے۔ ہاں عطیہ بیگم کتنے ہی موسم بیت گئے۔ 

دل کی دنیا میں موسم روز تو نہیں بدلتے اور تمہارے لیے میرے جذبات میں جو ٹھہراؤ پیدا ہوا ہے وہ زمانوں کے گزرنےسے ہی پیدا ہوتا ہے۔ میں تمہارے ساتھ بہت چلا ہوں، اتنی دور تک کہ میرے پاؤں میں اب اور آگے جانے کی سکت نہیں ہے۔ مگر تم نے مجھے آگے چلا یا ہی کہاں ہے۔ جب تم سے ملاقات ہوئی ہے تو تم زرد رو اور دبلی ہو رہی تھیں۔ تمہاری آنکھوں میں گھائل ہرنی کی سی المناک بے بسی تھی اور وہ مسکراہٹ جس نے میرا سب کچھ ہرلیا تھا۔ تم نے مجھے فون نہیں کیا تھا۔ تم نے مجھے کوئی اطلاع آنے کی نہیں دی تھی۔ صرف ایک نوٹ لکھا تھا، ’’داغِ فراق و صحبتِ شب کی جلی ہوئی۔‘‘ 

میرا دل اس کو دیکھ کر دھڑکا نہیں۔ میں نے سارے خطوں سے الگ اسے اپنے سامنے رکھ لیا اور بہت دیر اسے پڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ حروف میری آنکھوں میں دھبوں کی طرح ابھرنے لگے۔ مجھے اپنے چہرے پر نمی محسوس ہوئی۔ کیا میں رو رہا تھا؟ تمہارے فراق کی مدت اتنی طویل اور تمہارے وصل کی گھڑی اتنی مختصر ہوا کرتی تھی کہ میں نے اپنے آپ کو اس سانچے میں ڈھال لیا تھا۔ کیا میں تمہارے لیے پریشان تھا۔ 

دفتر کے سامنے نکلتے ہی تم مجھے مل گئیں۔ بیٹھتے ہی تم نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ میں بھیڑ میں موٹر چلاتا رہا اور تم اپنے سامنے دیکھتی ہوئی چپ چاپ آنسو بہاتی رہیں۔ تم نے میرے سینے پر اتنے آنسو بہائے ہیں مگر وہ کیف و نشاط کے آنسو تھے۔ دو گھڑی مل بیٹھنے کی خوشی کے آنسو، جانے کیوں مجھے اپنا دل بیٹھتا ہوا لگا۔ ہم دونوں میں سے کوئی نہیں بولا۔ ہاکس بے ہم سے بہت پیچھے رہ گیا اور سامنے گہرانیلا بے پایاں بے کراں سمندر کروٹیں لے رہا تھا۔ لہریں غصہ ور دیو کی طرح پھنکار رہی تھیں۔ اگلی ملاقاتوں کی طرح تم نے اپنا سر میرے سینے سے نہیں لگایا۔ آج شاید تم نے کچھ بھی نہ کہنے کی قسم اٹھارکھی تھی۔ اور میں ایک پتھر پر بیٹھ گیا، تمہارے قرب سے سرشار۔ 

آخر میرا کیا حق تھا تم پر۔ تمہارا وجود مجھے خوشی دیتا تھا میرے لیے یہی کافی تھا۔ میں نے تم سے اس طویل خاموشی کی وجہ نہیں پوچھی۔ میں نے اتنے دنوں میں قدرت کی طرح تمہارے بدلتے رنگوں سے مطابقت پیدا کرلی تھی اور مجھے نہ تمہاری محبت پر یقین تھا اور نہ ہی بے یقینی۔ تم نے پلٹ کر مجھ سے کہا تھا، ’’دنیا میں ہاکس بے کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں۔ سمندر سے مجھے اب خوف آنے لگا ہے۔ کیا ہم اور کہیں نہیں جا سکتے۔ مجھے اس شہر کی نگاہیں پیس کر رکھ دیں گی۔ میں یہاں ایک لمحہ نہیں رکنا چاہتی۔‘‘ 

’’یہ تم میں خود کلامی کی عادت کب سے پیدا ہوگئی۔ تم تو بات کرنے کو وقت کی توہین خیال کرتی ہو۔‘‘ میں نے پتھر سےاٹھ کر تمہاری طرف آتے ہوئے کہا۔ تم میری ٹانگوں میں لپٹ گئیں۔ تمہارے بازوؤں کے حلقے میں میں کانپ گیا۔ 

’’مجھے یہاں سے لے چلو کہیں دور، جہاں یہ جان کو پینے والا موسم نہ ہو۔ یہ سمندر کی نمی سے بھری ہوا نہ ہو، یہ جادو جگاتی ہوئی لہریں نہ ہوں۔ تم مجھ پر اتنا احسان نہیں کرسکتے۔‘‘ 

’’مگر کیوں عطیہ بیگم۔‘‘ میں نے بہت ہمت سے کام لےکر کہا، ’’سمندر کو شروع سے تم نے منتخب کیا ہے اور میں سوچتا ہوں یہ ٹھیک ہی ہے۔‘‘ 

’’تم سوچتے ہو! تم سوچتےہو! تم کچھ نہیں سوچ سکتے۔ تم نے سوچا ایک جوان عورت تمہاری جھولی میں آگری ہے۔ تم نے کبھی مجھ سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر نہیں کیا۔ میں آؤں یا نہ آؤں تمہیں اس سے کیا۔ تمہیں میرا وجود پتھر کے ٹکڑے کی طرح لگتا ہے غیر اہم اور لایعنی، بیکار۔ سچ کہنا میری غالب پسندی تم کو کھیل نہیں لگتی؟ تم کو کیا پتہ خونِ جگر ہونے تک آدمی پر کیا بیت جاتی ہے۔‘‘ 

تم بیٹھے سے کھڑی ہوگئیں۔ 

’’میں نے تو ایسا تم کو ستانے کا کوئی کام نہیں کیا عطیہ بیگم۔ میں تو چراغ کا جن ہوں جب جب تم نے مجھے پکارا ہے تمہاری آواز پر لبیک کہا ہے۔ یہ تمہاری مجھ سے غالباً چوتھی ملاقات ہے اور میں خود بھی سوچتا ہوں کہ یہ حالت زیادہ دنوں نہیں چل سکتی۔ تم مجھ سے کیا چاہتی ہو، مجھے بتادو تو شاید راہ آسان اور زندگی میں کچھ سکون ہو۔ اور اب حالت یہ ہے کہ تم میری اور اپنی دونوں کی مالک و مختار ہو۔اور عطیہ تم نے کہا تھا، ’’یہ راہ ہم دونوں نےچنی ہے۔ تم کو مجھ سے شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ 

ہم برسوں سے ساتھ رہنے والے دوستوں کی طرح ایک دوسرے پر الزام دھر رہے تھے۔ عطیہ تم اٹھارہ سال کی جوان عورت تھیں اور میں تمہارے قدموں کے نشانوں پر کتنی دور نکل آیا تھا۔ یہ تمہارے قدموں کے نشان ہی تھے ورنہ تم میری منزل نہ تھیں، میں تمہارا سہارا نہ تھا۔ 

’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں شکایت نہیں کر رہا، میں صرف اس صورتِ حال کی بات کرتا ہوں۔ تمہارا خیال ہے۔‘‘ میری بات ختم ہونے سے پہلے ہی تم نے کہا تھا، ’’مجھے سہارے کی ضرورت تھی اور تم میرا سہارا بننا نہیں چاہتے۔ تم کو مجھ سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ میری اور تمہاری آخری ملاقات ہے۔ میں نے تمہیں دل و جان سے چاہا ہے تم مجھے نہیں چاہ سکے یہ میری بدقسمتی ہے اور میں کیا کہوں؟‘‘ 

پھر تم مجھ سے منہ موڑ کر موٹر میں جا بیٹھیں اور میں تمہیں واپس لے آیا۔ عطیہ بیگم میں آج اس اکیلی رات میں جب نہ کہکشاں ہے اور نہ تارے، اقرار کرتا ہوں عطیہ بیگم کہ میں نے تمہیں چاہا تھا۔ اور میرا دل تمہیں دیکھ دیکھ کر بہت جلاہے۔ جب مجھ سے روٹھ جانے کے بعد ظاہر تم کبھی مجھے نہیں ملیں مگر اکثر تم دوسروں کے پہلوؤں میں اوروں کی موٹروں میں غیروں کے ساتھ مجھے دکھائی دی ہو۔ 

جانے تم نے مجھ سے کیا چاہا تھا؟ مگر عطیہ میں تمہاری ہمت کی وجہ سے تمہاری عزت کرتا ہوں اور تمہاری جرأت نے کبھی مجھے آگے قدم بڑھانے کا حوصلہ نہیں دیا۔ میں نے سدا تم سے تمہیں بچانا چاہا ہے۔ میں نے اپنے آپ سے بھی تمہیں بچایا ہے۔ تم میری امانت ہو عطیہ جو میں نے دنیا کو سونپی ہے۔ تم کو کیا معلوم میں نے ان گھڑیوں کو جب تم میرے سینے سے لگ کر سسکتی تھیں کیسا سنبھال کر رکھا ہے، اس الوہیت کو برباد نہیں کرسکتا تھا۔ ان لمحوں کی قیمت نہ تم ہو اور نہ میں۔ ہوسکتا ہے ہم کچھ دور ساتھ چلتے۔ میرا مطلب ہے کچھ دور اور میں تمہارے قدموں کے نشانوں پر چلتا مگر چاہتیں منزل نہیں بن سکتیں عطیہ بیگم۔ یہ تو زندگی کی راہ پر چلنے والے دیے ہیں جن کی روشنی میں راہ طے ہوتی ہے بھلا میں اس یخ بستہ بے رحم دنیا میں تمہارے وجود کی روشنی میں کتنی دور چل سکتا تھا؟ اور کون جانتا ہے اس کی منزل کہاں ہے؟ 

مگر جب بھی نامعلوم خوشبوئیں مجھے گھیر لیتی ہیں، میں اکیلا ہوتا ہوں تو مجھے یاد آتی ہو عطیہ بیگم، گھاس میں سے جھانکتے اکیلے پھول کی طرح مغرب کے آسمان پر چمکتے ہوئے تارے کی طرح۔ 

   1
0 Comments